Skip to main content
Atif Beig
  • Lahore, Punjab, Pakistan

Atif Beig

اگر مصریوں کے اتم اور نیو ڈارونزم کی ان کوششوں کو تفصیلی نظر سے دیکھا جائے تو یہ مماثلث صاف نظر آجائے گی کہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی کا بنیادی جوہر گہرے سمندر میں ہی موجود ہے اور گہرے سمندروں کی تہہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر یہ عمل... more
اگر مصریوں کے اتم اور نیو ڈارونزم کی ان کوششوں کو تفصیلی نظر سے دیکھا جائے تو یہ مماثلث صاف نظر آجائے گی کہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی کا بنیادی  جوہر گہرے سمندر میں ہی موجود ہے اور گہرے سمندروں کی تہہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر یہ عمل شروع ہوا ۔"پانی سے ہر چیز تخلیق کی گئی "اور زندگی کا اولین جوہر "پانی میں موجود ہے " ان دونوں باتوں میں عظیم فرق ہے ۔الہامی ادیان کا ماننا ہے کہ "خدا سب کچھ عدم سے وجود میں لایا ہے "، اس سے پہلے زندگی کسی جوہر کی صورت میں بھی موجود نہ تھی ۔ ہر چیز کو پانی سے تخلیق کیا گیا ہے ، پانی زندگی کا بنیادی جوہر ہے ، زندگی ایک جوہر کی صورت میں پانی میں نہیں تھی ۔
ممفس کا عقیدہ بیک وقت ایک دینی اور فلسفیانہ عقیدہ ہے ۔اس میں ایک واحد ، اول ، خالق و مالک ، شریعت ساز دیوتا کا تصور موجودد ہے ۔شریعت ساز ہونے کا خیال ایک اچھوتا خیال ہے جو کے کسی اور مصری نظریئے میں نہیں پایا جاتا ۔اونو شہر کے عقیدے کے برعکس یہ عقیدہ پہلے دیوتا کا زیادہ درست تصور پیش کرتا ہے ۔اس عقیدے میں "تصور و کلام " کی ایک مربوط شکل پیش کی گئی ہے ۔لیکن جہاں انہوں نے عقلی بنیادوں پر وہ خلا پر کرنے کی کوشش کی ہے جو کے وحی خالص کی غیر موجودگی یا بوسیدگی کی وجہ سے ان میں موجود نہ رہا تھا وہاں انہوں نے فلسفے کی مدد سے اسے سلجھانے کی کوشش کی اور اس کو "وحدۃ الوجود و حلول" کی جانب لے گئے
باب الابواب کے دردیوار پر پھر خوف چھایا ہوا تھا ،دیوار پر کھڑے پہریدار سر تا پاوں زرہ بکتر میں ملبوس ہونے کے باوجود دیوار کی دوسری طرف جب جھانکتے تو ایک انجانا خوف انہیں اپنے گرفت میں لے لیتا ، شمالی سمت میں قفقاز کا پہاڑی سلسلہ جو دور تک... more
باب الابواب کے دردیوار پر پھر خوف چھایا ہوا تھا ،دیوار پر کھڑے پہریدار سر تا پاوں زرہ بکتر میں ملبوس ہونے کے باوجود دیوار کی دوسری طرف جب جھانکتے تو ایک انجانا خوف انہیں اپنے گرفت میں لے لیتا ، شمالی سمت میں قفقاز کا پہاڑی سلسلہ جو دور تک پھیلا چلا گیا تھا اسکے دامن میں نیا طوفان انگڑائی لے رھا تھا ، وحشی ھن اپنے گھوڑوں کو مہمیز دے رہے تھے اور خاقان خزر کی آمد کا غلغلہ تھا ۔ شمالی سمت سے خون کی پیاس کی بو آرہی تھی ۔ البانیہ کا ایک مورخ  انکے حملوں کا منظر یوں بیان کرتا ہے
اور جب کائناتی غضب ہم پر ٹوٹ پڑا اور (خزر) سمندر کی بے قابو موجوں کی طرح شہر کی دیواروں سے ٹکرا گئے اور انکو بنیادوں تک گرا دیا ۔ بردعہ کے لوگوں کا خوف ان وحشت انگیز چہروں کو دیکھ کر اور بڑھ گیا جو کے ان پر نازل ہوئے تھے ، یہ بدصورت خوفناک ، کریہیہ المنظر چوڑے چہرے ، جنکی آنکھوں پر پلکیں نہ تھیں اور جنکے بال عورتوں کی مانند لمبے تھے "
Research Interests:
ہماری دو قبریں ھیں
ایک چین  میں اور ایک بلنجر میں
چین کی قبر فتوحات کی یاد ہے
اور بلنجر کی قبر کے فیض سے اطراف کے رستے سیراب ہوتے ھیں ۔
Research Interests:
یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت کی مہذب دنیا کا سٹیپی کے خانہ بدوشوں کے متعلق یہی تاثر تھا ۔ خون پینے والے آدم خوروحشی جن سے لڑنا ناممکن ہے ، جو قفقاز کی پہاڑیوں کی چوٹیوں و دروں سے نکل کر متمدن زمینوں پر حملہ آور ہوتے ھیں اور سب کچھ تباہ و... more
یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت کی مہذب دنیا کا سٹیپی کے خانہ بدوشوں کے  متعلق یہی تاثر تھا ۔ خون پینے والے آدم خوروحشی جن سے لڑنا ناممکن ہے ، جو قفقاز کی پہاڑیوں کی چوٹیوں و دروں سے نکل کر متمدن زمینوں پر حملہ آور ہوتے ھیں اور سب کچھ تباہ و برباد کردیتے ھیں ، کچھ کا ماننا تھا کہ یہی یاجوج و ماجوج ھیں ، کچھ کا کہنا تھا کہ نہیں یہ خدا کے غضب کا تازیانہ ہیں جو کے ہمارے گناہوں کے سبب ہم پر برسا ہے ، انکے بارے میں سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ انکی تاریخ دوسروں نے لکھی ہے اور دوسروں نے جس روپ میں انہیں دیکھاہے اسکے مطابق لکھی ہے
آج ہم اس جہاد کے کمانداروں کے نام سے واقف نہیں اور ہمیں یہ بات بھی حیرت میں ڈالے دیتی ہے کہ کیسے کچھ مسلمان یہودی خاقان کی رعایا بن کر رہ سکتے ھیں اور کیسے یہودی خاقان نے اپنی مسلمان رعایا کو اپنے اصل ارادوں سے بے خبر رکھا ، لیکن اس مہذب... more
آج ہم اس جہاد کے کمانداروں کے نام سے واقف نہیں اور ہمیں یہ بات بھی حیرت میں ڈالے دیتی ہے کہ کیسے کچھ مسلمان یہودی خاقان کی رعایا بن کر رہ سکتے ھیں اور کیسے یہودی خاقان نے اپنی مسلمان رعایا کو اپنے اصل ارادوں سے بے خبر رکھا ، لیکن اس مہذب دنیا میں رھتے ہوئے شائد ہم قبائلی اصولوں کو نہیں سمجھ سکتے جو کے ایک قبائلی معاشرے کی تخلیق کرتے ھیں اور جس میں نسل و قبیلہ مذھب سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے ، اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ واقعہ اس امر کی یاد بھی دلاتا ہے کہ اسلام کی تاریخ ایسے ان گنت معرکوں و لوگوں سے بھری ہوئی ہے جسکا شائد کہیں کوئی ذکر نہیں اور اگر ہے بھی تو اسکی تفصیل میسر نہیں ، لیکن ان گمنام لوگوں نے اسلام کی تاریخ کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے
یہ گھر یا قلعے بنانے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتے ، زیادہ تر یہ نمدے (ان بنا گرم کپڑا) کے بنے ہوئے خیموں میں زندگی بسر کرتے ،اور اگر گارے کے گھر بناتے بھی تو ان پر بھی نمدہ منڈھ دیا جاتا جسکو گھوڑے یا گائے کے چمڑے سے بنی رسیوں یا پٹیوں کی... more
یہ گھر یا قلعے بنانے میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتے ، زیادہ تر یہ نمدے (ان بنا گرم کپڑا) کے بنے ہوئے خیموں میں زندگی بسر کرتے ،اور اگر گارے کے گھر بناتے بھی تو ان پر بھی نمدہ منڈھ دیا جاتا جسکو گھوڑے یا گائے کے چمڑے سے بنی رسیوں یا پٹیوں کی مدد سے مکانات کے اردگرد باندھ دیا جاتا ، یورت کے عموما دو حصے ہوتے جس میں ایک حصہ عورت کے لیے مخصوص ہوتا اور ایک مرد کے لیے ، عورت جب حاملہ ہوتی تو وہ مردانہ حصے میں بچے کو جنم دیتی یہ اس بات کی نشاندھی ہوتی کہ بچہ اسی مرد کا ہے انکی خوراک گھوڑوں یا بھیڑ بکریوں کا گوشت یا وہ کاشت کاری تھی جسکو مختصر موسم گرما میں یہ کاشت کرتے ، جب موسم گرما ہوتا اور سٹیپی کے میدانوں میں دور دور تک گھاس لہلانے لگتی تو یہ وھاں پر اپنی بھیڑ بکریاں چراتے اور انکا دودھ پیتے اور وہ چارے کی فروانی کیوجہ سے خوب موٹی تازی ہوجاتیں موسم سرما آتے ہی وہ انکو ذبح کرکے کھانے لگتے ، گھوڑے کا گوشت اور گھوڑی کا دودھ انکی من بھاتی خوراک تھی ، بھیڑ بکریوں کی انکے ھاں کثرت تھی ایک عرب مورخ کا کہنا ہے
The conversion of Khazar to Judaism has been a point of debate among renowned scholars. Many conferences have been conducted on the topic as new research keeps pouring in. Yet, this matter still remains disputed and it is hard to draw a... more
The conversion of Khazar to Judaism has been a point of debate among renowned scholars. Many conferences have been conducted on the topic as new research keeps pouring in. Yet, this matter still remains disputed and it is hard to draw a concrete conclusion. I shall leave the matter of conclusion to the scholars and will focus on presenting my findings only.
ہمارے نظام شمسی کے وجود میں آنے سے پہلے بھی پانی موجود تھا ۔بلکہ زمین کے قشر کے نیچے قریبا چھ سو سے لے کر سات سو کلو میٹر کی گہرائی پر"رنگ وو ڈائٹ " کے درمیان ایک ایسا سمندر بھی دریافت ہوچکا ہے جس میں پوری دنیا کے مجموعی پانی سے تین گنا... more
ہمارے نظام شمسی کے وجود میں آنے سے پہلے بھی پانی موجود تھا  ۔بلکہ زمین کے قشر کے نیچے قریبا چھ سو سے لے کر سات سو کلو میٹر کی گہرائی پر"رنگ وو ڈائٹ " کے درمیان ایک ایسا سمندر بھی دریافت ہوچکا ہے جس میں پوری دنیا کے مجموعی پانی سے تین گنا زیادہ پانی موجود ہے  ۔گویا سائنس نے ابھی تک یہ مان لیا ہے کہ پانی اس کائنات کی سب سے قدیم ترین چیز ہے  لیکن اللہ تعالی ہمیں واضح و صریح خبر دے رہے ہیں کہ پانی زمین  کی تخلیق سے بھی پہلے سے موجود تھا اور ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ ہم سائنس کے اس دور تک پہنچنے کی کوشش کا انتظار کریں اور پھر یقین لائیں ، سائنس تو ابھی تک بگ بینگ سے پہلے والی کائنات کا تصور بھی کرنے سے عاجز ہے ۔اس بات میں شک و شبہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ پانی زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل موجود تھا ۔ اور اس نے تخلیق کائنات میں کوئی ایسا کردار ادا کیا ہے جس کا ادراک کرنے سے سائنس ابھی تک عاجز ہے ۔
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذبیں تمام کی تمام ایک "زنان شاہی دور" کا حصہ تھیں ۔پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں ۔بچوں کی پیدائش... more
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذبیں تمام کی تمام ایک "زنان شاہی دور" کا حصہ تھیں ۔پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں ۔بچوں کی پیدائش کو پراسرار سمجھا جاتا۔یہ حد درجہ ضروری بھی تھا اور قابل حسد بھی ۔عورتوں کی اس وجہ سے پوجا کی جاتی ، وہ اس وجہ سے برتر سمجھی جاتیں ۔مرد  بالکل  بستی کے کناروں پر رہتے تھے ، وہ محض ایک قابل تبدئیل مزدور تھے اور عورتوں کے مرکز کے عبادت گزار !، جو کے زندگی کاسرچشمہ تھیں ۔پدرانہ نظام کی دریافت ،جنسی تعلق اور بچے جنم دینے کے لیے ،معاشرے کے لیے اتنا ہی تباہ کن تھا جتنا آگ کی دریافت یا اٹیم کو پھاڑنے کا راز دریافت کرلینا !۔رفتہ رفتہ "مردوں کا بچوں کے سرپرست" ہونے کے نظریئے نے بھی طاقت پکڑ لی ۔"مادر سری"  نظام خانہ بدوش لوگوں کے پے در پے حملوں سے بھی متاثر ہوا ۔کسانوں اور شکاریوں کے درمیان کا جھگڑا درحقیقت مرد غالب تہذبیوں اور عورت غالب تہذیبوں کے درمیان کی لڑائی تھی !۔نتیجہ کار عورتیں بتدریج اپنی آذادی ، پراسراریت اور برتری کھوتی گئیں ۔کم و بیش پانچ ہزار سال تک زنان شاہی کا زمانہ امن اور پیداوار کا  زمانہ تھا ۔ "
یہ وہ تاریخ ہے جو کے فیمنسٹ کی ایجاد کردہ ہے  اور جس کا کم و بیش تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے !
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذبیں تمام کی تمام ایک "زنان شاہی دور" کا حصہ تھیں ۔پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں ۔بچوں کی پیدائش... more
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذبیں تمام کی تمام ایک "زنان شاہی دور" کا حصہ تھیں ۔پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں ۔بچوں کی پیدائش کو پراسرار سمجھا جاتا۔یہ حد درجہ ضروری بھی تھا اور قابل حسد بھی ۔عورتوں کی اس وجہ سے پوجا کی جاتی ، وہ اس وجہ سے برتر سمجھی جاتیں ۔مرد ایک گھیرے میں تھے ، وہ محض ایک قابل تبدئیل مزدور تھے اور عورتوں کے مرکز کے عبادت گزار !، جو کے زندگی کاسرچشمہ تھیں ۔پدرانہ نظام کی دریافت ،جنسی تعلق اور بچے جنم دینے کے لیے ،معاشرے کے لیے اتنا ہی تباہ کن تھا جتنا آگ کی دریافت یا اٹیم کو پھاڑنے کا راز دریافت کرلینا !۔رفتہ رفتہ "مردوں کا بچوں کے سرپرست" ہونے کے نظریئے نے بھی طاقت پکڑ لی ۔"زنان شاہی " خانہ بدوش لوگوں کے وقفہ در وفقہ حملوں سے بھی متاثر ہوئی ۔کسانوں اور شکاریوں کے درمیان کا جھگڑا درحقیقت مرد غالب تہذبیوں اور عورت غالب تہذیبوں کے درمیان کی لڑائی تھی !۔نتیجہ کار عورتیں بتدریج اپنی آذادی ، پراسراریت اور برتری کھوتی گئیں ۔کم و بیش پانچ ہزار سال تک زنان شاہی کا زمانہ امن اور پیداوار کا  زمانہ تھا ۔"
یہ وہ تاریخ ہے جو کے ان نام نہاد فیمنسٹ نے ایجاد کی ہے اور جس کا کم و بیش تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے
سومیری ادب میں جس داستان نے سب سے زیادہ بائبل کے محققین کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے وہ طوفان نوح کی سرگزشت ہے ۔ یہ کہانی اپنی اصل میں طوفان نوح سے اس قدر مشابہ ہے کہ بعض ملحد محققین کا ماننا ہے کہ بائبل کے مصنفین نے یہ کہانی سومیریوں سے... more
سومیری ادب میں جس داستان نے سب سے زیادہ بائبل کے محققین کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے وہ طوفان نوح کی سرگزشت ہے ۔ یہ کہانی اپنی اصل میں طوفان نوح سے اس قدر مشابہ ہے کہ بعض ملحد محققین کا ماننا ہے کہ بائبل کے مصنفین نے یہ کہانی سومیریوں سے اخذ کی ہے ۔گوکے بآسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کہانی بہت دیر سے زبانی روایات کی صورت میں موجود تھی اور سومیریوں نے اسی کو نقل کیا ہے ۔قوموں کی زندگی میں کئی ایسے لمحات گزرے ہیں جو کے ان کے لیے تاریخ کا نقطہ آغاز بن گئے ہوں ۔عیسائیت کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام  کی ولادت اس قدر اہم وقت تھا کہ انہوں نے اپنی تاریخ کا آغاز ہی اسی سے کیا ، مسلمانوں کے لیے ہجرت کا واقعہ اس قدر اہم تھا کہ انہوں نے سن ہجری کا آغاز اسی سے کیا ۔ہر تقویم کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ کوئی نہ شخصیت چھپی ہوئی ہے۔
مصر کے قاضی القضاۃ علامہ تقی الدین ابن دقیق العید کا ایک مکالمہ امام ابن تیمیہؒ کے ساتھ تاریخ نے محفوظ کیا ہے "(امام ابن تیمیہؒ کہتے ھیں) مجھے سے ابن دقیق نے بیان کیا کہ تاتاریوں نے بلاد مشرق (اسلامی بلاد مشرق توران ، ایران ، عراق) میں... more
مصر کے قاضی القضاۃ علامہ تقی الدین ابن دقیق العید کا ایک مکالمہ امام ابن تیمیہؒ کے ساتھ تاریخ نے محفوظ کیا ہے
"(امام ابن تیمیہؒ کہتے ھیں) مجھے سے ابن دقیق نے بیان کیا کہ تاتاریوں نے بلاد مشرق (اسلامی بلاد مشرق توران  ، ایران ، عراق) میں محض فلسفہ کے غالب ہونے اور شریعت کے کمزور ہونے کیوجہ سے غلبہ حاصل کیا ہے ، تو میں نے کہا کہ آپ کے علاقہ (مصر) میں بھی وجودیوں کا مذھب پایا جاتا ہے جو کے فلسفیوں کے مذھب سے بدتر ہے تو وہ فرمانے لگے کہ وجودیوں کے مذھب کو کوئی عقل مند قبول نہیں کرتا کیونکہ اس مذھب کا فاسد ہونا ظاہر ہے اور ہر عقل مند اسکے فساد واقف ہے یہی وجہ ہے کہ یہ عقل مندوں کے سامنے اپنا مذھب پیش ہی نہیں کرتا برخلاف فلسفہ کے ، جو کے خود بھی باطل ہے مگر پھر بھی اس میں وجودیت کے مقابلے پر تھوڑی سی معقولیت موجود ہے "