Home ستاروں کےدرمیاں مولانا نظام الدین اسیر ادروی:اسیرِ علم و قلم۔ نایاب حسن

مولانا نظام الدین اسیر ادروی:اسیرِ علم و قلم۔ نایاب حسن

by قندیل

وبائی ہیجان کے دوران ملک کے ایک اور ممتاز عالم دین ، مصنف و سوانح نگار مولانا نظام الدین اسیر ادروی کا بھی طویل علالت کے بعد آج انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً پچانوے سال تھی ۔ مولانا اسیر ادروی ہندوستان کے گنے چنے کثیر التصانیف اور قابلِ اعتماد اہل قلم میں سے ایک تھے۔ انھوں نے ہندوستانی سیاست،تاریخِ آزادی،سوانح و شخصیات پر درجنوں کتابیں لکھیں۔ سیرت پاک پر ’’عہد رسالت:غارِ حرا سے گنبد خضرا تک‘‘ اور دیگر موضوعات، خاص طورپر اکابر علماے دیوبند؛ مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی زندگی اور کارناموں سے روشناس کرانے والی ان کی کتابیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے دیگر کئی علما کی سوانح لکھیں۔ دارالعلوم دیوبند کی علمی و دینی خدمات پر ایک کتاب’’دارالعلوم دیوبند:احیاے اسلام کی عظیم تحریک‘‘ بھی ان کی اہم کتاب ہے،’’دبستانِ دیوبند کی علمی خدمات‘‘بھی ان کے تحقیقی ذوق کا بہترین نمونہ ہے۔ انھیں اگر مؤرخِ دارالعلوم دیوبند کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ ان سے پہلے سید محبوب رضوی نے دو جلدوں میں تاریخِ دارالعلوم دیوبند لکھی تھی، جو ستر کی دہائی میں شائع ہوئی تھی،اس سلسلے کو انھوں نے بڑھایا اور پھیلایا؛چنانچہ ان کی کم سے کم چھ اہم ترین کتابیں براہِ راست دارالعلوم اور اکابر دارالعلوم کی تاریخ و سوانح سے تعلق رکھتی ہیں، جو دارالمؤلفین اور شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند وغیرہ سے شائع ہوئیں اور متعلقہ موضوع پر بنیادی مصادر کا درجہ رکھتی ہیں۔
ہندوستان کی تحریک آزادی کے وہ چشم دید گواہ؛بلکہ اس تحریک کے کارپردازوں میں شامل رہے اور طالب علمی کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے،بعد میں ’’تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘ جیسی اہم اور مستند کتاب تالیف کی۔ اس کے علاوہ جمعیت علما کی تاریخ مرتب کی اور تبلیغی جماعت کا علمی دفاع کیا۔’’تاریخی طبری کا تحقیقی جائزہ‘‘ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ہے،جس میں انھوں نے شہرۂ آفاق کتاب’’تاریخ الامم والملوک‘‘ کے واقعات و روایات کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے،’’تفسیروں میں اسرائیلی روایات‘‘بھی ان کی بہترین تحقیقی کتاب ہے، معروف عباسی شاعر ابوالطیب المتنبی کے شعری دیوان کی شرح بھی لکھی،فن اسماء الرجال پر بھی ان کی دو کتابیں (فن اسماء الرجال،معجم رجال البخاری) ہیں۔ ان کی ایک نہایت اہم کتاب’’افکارِ عالم فکرِ اسلامی کی روشنی میں‘‘،جو دوجلدوں اور ۸۲۹؍صفحات پر مشتمل اور ان کے ۲۹؍ علمی،فکری،ادبی،تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ طباعت کے لحاظ سے ان کی غالباً آخری تصنیف ان کی خود نوشت سوانح ’’داستانِ ناتمام‘‘(دو جلدیں) ہے،جو ۲۰۰۹ میں مکتبہ حسینیہ دیوبند سے شائع ہوئی،حالاں کہ یہ کتاب بھی بہت پہلے کی لکھی ہوئی تھی،اس کے آخری صفحے پر یکم جنوری ۱۹۹۶ کی تاریخ درج ہے اور شروع میں’’یہ کتاب‘‘کے عنوان سے ایک صفحے کی تحریر ہے،جس کے آخر میں ۲۷ ستمبر ۲۰۰۵ کی تاریخ پڑی ہوئی ہے ۔ خودنوشت کے کل صفحات ۳۳۸ ہیں اور اخیر کے دوصفحات میں مولانا کی تصانیف کی فہرست درج ہے،جس میں ۲۶؍مطبوعہ اور چار گم شدہ کتابوں کے نام درج ہیں۔ ان چاروں میں ایک افسانوی مجموعہ،ایک شعری مجموعہ، ایک کتاب’’کمیونزم تجربات کی کسوٹی پر‘‘ اور ایک کتاب ’’غدارانِ وطن‘‘ہے۔ اندر مولانا نے اپنی کتابوں کا چند سطری تعارف بھی لکھا ہے۔
مولانا کا اسلوبِ تحریر بہت صاف ستھرا،نکھرا اور شستہ تھا،حالاں کہ مؤرخانہ رنگ ان کے یہاں حاوی تھا،مگر اسلوبِ بیان کی شیرینی کو وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ ان کی ہر کتاب میں جہاں معلومات کی فراوانی ہوتی ہے،وہیں طرزِ بیان کا حسن و جمال بھی بہ تمام و کمال پایا جاتا ہے۔ انھوں نے بے ساختہ لکھا اور بے پناہ لکھا ہے،ان کی تحریروں کی روانی خاص طورپر قلب و نگاہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور انھیں پڑھنے کے لیے خواہ مخواہ دل مچلنے لگتا ہے۔ ہماری ان سے واقفیت’’تحریکِ آزادی اور مسلمان‘‘ نامی کتاب سے ہوئی جو دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ مدارس کے درجہ عربی پنجم میں داخلِ نصاب ہے۔ بعد میں ان کی دوسری کتابیں بھی کبھی شوق سے اور کبھی علمی ضرورت کے تحت پڑھتے رہے،ان کی آخری کتاب’’داستانِ ناتمام‘‘ پڑھی اور خوب محظوظ ہوئے۔ اس کتاب میں ان کا اسلوب خاصا دل فریب اور شوخ و رنگین ہے۔ یہ کتاب مولانا کی سوانحِ حیات ہونے کے علاوہ بہت سی دوسری تاریخی،علمی و ادبی معلومات کا گنجِ گراں مایہ بھی ہے اور اس میں ایک خود نوشت کے سبھی ادبی و فنی لوازم اپنی تمام تر رعنائی و زیبائی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ مولانا نے حالات وواقعاتِ زندگی کو بیان کرنے میں اپنی علمی برتری یا دینی حیثیت و شخصیت کو آڑے نہیں آنے دیا ہے اور پوری دیانت اور صفائیِ قلب و قلم کے ساتھ اپنی بیتی بیان کرتے گئے ہیں،جس کی وجہ سے اس میں ان کی شخصیت کا ہر رنگ بالکل نمایاں اور چوکھا ہے۔ پھر چوں کہ انھوں نے بڑی ماجرا پرور زندگی گزاری اور حصولِ علم اورعملی زندگی کے مختلف مراحل میں بے شمار شخصیات،کئی اداروں اور تنظیموں سے ان کا راست واسطہ رہا،سو ان کے حوالے سے اپنے تجربے کو بھی مولانا نے بے کم و کاست بیان کردیا ہے،کتاب کا یہ وصف بھی بے پناہ دلکشی کا حامل ہے۔
مولانا کی پیدایش ۱۹۲۶ کی تھی، ابتدائی تعلیم وطن میں اور اس کے بعد مئو اور اعظم گڑھ کے مشہور اداروں مفتاح العلوم،احیاء العلوم ارو دارالعلوم مئو میں مشکوۃ تک کی تعلیم حاصل کی،اس کے بعد دیوبند پہنچے،مگر وہاں داخلہ نہ ہوسکا)جس کی وجہ دلچسپ تھی،جانناچاہیں، تو ان کی خودنوشت کے صفحہ ۶۶ تا ۷۱ کا مطالعہ فرمائیں)۔ پھر مدرسہ شاہی گئے اور وہاں سے ۱۹۴۲ میں فراغت حاصل کی،اسی سال ’’ہندوستان چھوڑدو تحریک‘‘ میں بھی حصہ لیا۔ قاضی اطہر مبارکپوری کی دعوت پر ۱۹۴۷ کے شروع میں لاہور گئے اور اخبار ’’زمزم‘‘میں کام کیا، عثمان فارقلیط اس کے ایڈیٹر اور قاضی صاحب ان کے معاون تھے۔ وہاں احسان دانش،تاجور نجیب آبادی،ابوسعید بزمی وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں۔ اس کے بعد لمبے عرصے تک اپنے وطن میں رہے،مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف،ستر کی دہائی میں چار سال جمعیت علما یوپی کے صدر دفتر لکھنؤ میں آفس سکریٹری رہے اور خاص طورپر مشرقی یوپی میں جمعیت کو متحرک اور سرگرم کیا،جمعیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے دیگر بہت سے اقدامات کیے(جنھیں اپنی خود نوشت میں انھوں نے بیان کیا ہے)، ،قیامِ لکھنؤ کے زمانے میں متعدد بڑے علما اور ادیبوں سے خاص تعلق رہا۔ ۱۹۷۸ میں جامعہ اسلامیہ،ریوڑی تالاب، بنارس سے وابستہ ہوئے،یہاں تدریسی خدمات انجام دیں،ادارے کی علمی شناخت اور تعلیمی وقار میں اضافہ کیا،سہ ماہی رسالہ’’ترجمان الاسلام‘‘نکالا،جو مدرسوں کے روایتی رسائل سے مختلف اور علمی و تحقیقی خصائص کا حامل تھا۔ وہ جب تک صحت مند رہے، نہایت سرگرم رہے،علم و فکر کے جام لنڈھاتے ،طلبۂ علومِ نبوت کو سیراب کرتے اور قلم و قرطاس کی ہم نیشنی میں شب روز گزارتے رہے،انھوں نے ذاتی محنت، ذوقِ تحقیق و جستجو،قلندرانہ شان اور درویشانہ استغنا و بے ریائی کی بدولت علمی حلقوں میں غیر معمولی وقار و اعتبار حاصل کیا،ان کی تحریریں مستند سمجھی جاتی تھیں اور ان کی باتوں میں وزن ہوتا تھا،جو لوگ اور حلقے ان کی وسعتِ علمی،تعمقِ فکر اور وجاہتِ شخصی سے واقف تھے، ان کے نزدیک ان کی حیثیت متنبی کی زبان میں یہ تھی کہ :
إذا قلتہ لم یمتنع عن وصولہ
جدار معلّٰی أو خباء مطنب
(جب میں کوئی بات کہتاہوں،تو اس کی(دور تک )رسائی کو نہ کوئی دیوارِ بلند روک پاتی ہے اور نہ کوئی تنا ہوا خیمہ)
مولانا ادروی تدریس کی راہ پر فراغت کے تقریباً ۳۵؍ سال بعد آئے تھے،اس سے پہلے وہ علمی و ادبی مشاغل کے ساتھ سیاسی و تنظیمی سرگرمیوں میں منہمک رہے،اس دوران انھیں بارہا سطحی ،مگر پیچیدہ سیاستوں سے بھی واسطہ پڑا؛ لیکن ’’اسیر‘‘ہونے کے باوجود کبھی کوئی انھیں رام کرنے یا پھانسنے میں کامیاب نہ ہوسکا،انھوں نے پوری زندگی اپنی شرطوں پر بسر کی،علم کو رسوا نہ ہونے دیا،قلم کی عظمتوں کے پاسدار رہے،ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی، ان کے نام کے ساتھ لاحقہ تو ’’اسیر‘‘کا تھا،مگر ذہن و فکر اور زبان و دل کی اسیری انھوں نے کبھی گوارہ نہ کی۔ اللہ پاک دائمی زندگی کے سکون اور راحتوں سے نوازے۔

You may also like

Leave a Comment